سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کے اونٹ کو ہانک کر لے جا رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مریں، اس پر سوار ہو جا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الأقوال/حدیث: 772]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب ماجاء فى قول الرجل، ويلك: 6159 و مسلم: 1323 و الترمذي: 911 و النسائي: 2800 و ابن ماجه: 3104 - صحيح أبى داؤد: 1544»
حضرت مسور بن رفاعہ قرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا: جب ایک آدمی نے ان سے پوچھا: میں نے روٹی گوشت کھایا ہے تو کیا اس سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا: تجھ پر افسوس، کیا تو طیبات، یعنی پاکیزہ چیزیں کھانے سے بھی وضو کرے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الأقوال/حدیث: 773]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے روز جعرانہ مقام پر تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سونے کی ڈلیاں تھیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک آدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: عدل کیجیے، آپ عدل نہیں کر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو برباد ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عوض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ہوگا جو قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔“ پھر سفیان نے کہا کہ ابوالزبیر نے کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، علی کہتے ہیں: میں نے سفیان سے کہا کہ قرہ جب بیان کرتے ہیں عمرو عن جابر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: مجھے عمرو کی حدیث کا علم نہیں۔ ہمیں تو ابوزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الأقوال/حدیث: 774]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب فرض الخمس: 3138، مختصرًا، و مسلم: 1063 و النسائي فى الكبرىٰ: 8033 و ابن ماجه: 172»
حضرت بشیر بن معبد سدوسی، جن کا نام زحم بن معبد تھا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: زحم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا نام (آج کے بعد) بشیر ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یقیناً ان لوگوں سے بہت زیادہ خیر چھوٹ گئی ہے۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”انہوں نے یقیناً خیر کثیر پالی ہے۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قبرستان میں جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سبتیہ جوتے پہننے والے، اپنے جوتے اتار دو۔“ چنانچہ اس آدمی نے دیکھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نظر آئے تو اس نے جوتے اتار کر پھینک دیے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الأقوال/حدیث: 775]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الجنائز، باب المشي بين القبور فى النعل: 3230 و النسائي: 2048 و ابن ماجه: 1568 - انظر الإرواء: 760»