46. قبر والوں کو سلام کہنا، ان پر رحم کھانا اور ان کے لئے دعا کرنا۔
حدیث نمبر: 497
محمد بن قیس نے ایک دن کہا کہ کیا میں تمہیں اپنی بات اور اپنی ماں کی بات نہ سناؤں؟ ہم نے یہ خیال کیا کہ شاید ماں سے وہ مراد ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ پھر انہوں نے کہا ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں تم کو اپنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سناؤں؟ ہم نے کہا کہ ضرور۔ انہوں نے کہا کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنی چادر رکھی اور جوتا نکال کر اپنے پاؤں کے آگے رکھا اور چادر کا کنارہ اپنے بچھونے پر بچھایا اور لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ گمان کر لیا کہ میں سو گئی ہوں۔ پھر آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے اور پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔ میں نے بھی اپنی چادر لی اور سر پر اوڑھی اور گھونگھٹ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع پہنچے اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار اٹھائے اور پھر لوٹے تو میں بھی لوٹی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی چلے تو میں بھی جلدی چلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑے اور میں بھی دوڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آ گئے اور میں بھی آ گئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آئی اور گھر میں آتے ہی لیٹ گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے تو فرمایا کہ اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے اور پیٹ پھولا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بتا دو نہیں تو وہ باریک بین خبردار (یعنی اللہ تعالیٰ) مجھے خبر کر دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی (یعنی ساری بات بتا دی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سایہ سا جو میرے آگے نظر آتا تھا، وہ تم ہی تھیں؟ میں نے کہا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر گھونسا مارا (یہ محبت سے تھا) کہ مجھے درد ہوا اور فرمایا کہ تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا؟ (یعنی تمہاری باری میں میں اور کسی بیوی کے پاس چلا جاؤں گا) تب میں نے کہا کہ جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے (یعنی اگر آپ کسی اور بیوی کے پاس جاتے تو بھی اللہ تعالیٰ دیکھتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے جب تو نے (مجھے اٹھتے ہوئے) دیکھا۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، تو میں نے بھی چاہا کہ تم سے چھپاؤں۔ اور وہ تمہارے پاس نہیں آئے تھے کہ تم نے (سونے کی غرض سے) اپنا زائد کپڑا اتار دیا تھا اور میں سمجھا کہ تم سو گئیں، سو میں نے برا جانا کہ تمہیں جگاؤں اور یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گئی کہ کہاں چلے گئے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا پروردگار حکم فرماتا ہے کہ تم بقیع کو جاؤ اور اہل بقیع کے لئے مغفرت مانگو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کیسے کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو ”اہل اسلام اور ایماندار گھر والوں پر سلام ہے اور اللہ تعالیٰ رحمت کرے ہم سے آگے جانے والوں پر اور پیچھے جانے والوں پر اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی (فوت ہو کر) تم سے ملنے والے ہیں“۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 497]