- (بينما أنا على بئر أَنْزِعُ منها؛ جاءني أبو بكر وعمر، فأخذ أبو بكر الدلو، فنزع ذنوباً أو ذنوبين، وفي نزعه ضعف، والله يغفر له! ثم أخذها ابن الخطاب من يد أبي بكر، فاستحالت في يده غرباً، فلم أر عبقرياً من الناس يفري فريه، فنزع، حئى ضرب الناس بعطن ٍ). جاء من حديث ابن عمر، وأبي هريرة، وأبي الطفيل. أما حديث ابن عمر؛ فرواه عنه اثنان: أولهما ة سالم - ولده-:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ( خواب میں) ایک کنویں سے پانی کھینچ رہا تھا، میرے پاس ابوبکر آئے، انہوں نے ڈول پکڑا اور ایک دو ڈول کھینچے، اس کے کھینچنے میں کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے عمر بن خطاب نے (وہ ڈول) پکڑ لیا، پھر تو وہ بہت بڑا ڈول ثابت ہوا، میں نے ایسا قوی (اور باکمال) آدمی نہیں دیکھا جو اس طرح کام کرتا ہو، انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے پانی کے پاس ٹھہر گئے۔ ” یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3250]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3614
حدیث نمبر: 3251
-" أبى الله والمؤمنون أن يختلف عليك يا أبا بكر".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی تو ( میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابوبکر کو حکم دیا کہ ”کوئی تختی یا ہڈی لاؤ، میں ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے حق میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس پر کسی کو اختلاف نہ ہو۔“ جب عبدالرحمٰن چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے اور مؤمنوں نے اس بات سے انکار کر دیا ہے کہ تجھ پر اختلاف کیا جائے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3251]