عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ ہدیہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہدیہ تھا، لیکن آج کل تو رشوت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: Q2596]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گورخر ہدیہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے اور محرم تھے۔ آپ نے وہ گورخر واپس کر دیا۔ صعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر (ناراضی کا اثر) ہدیہ کی واپسی کی وجہ سے دیکھا، تو فرمایا ”ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2596]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، زہری سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے کہ قبیلہ ازد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے (یعنی بیت المال کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس (مال زکوٰۃ) میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی (ناجائز) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی (اور فرمایا) اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ اے اللہ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ تین مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2597]