الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نذر اور قسم (حلف) کے احکام و مسائل
10. باب فِي كَرَاهِيَةِ النَّذْرِ
10. باب: نذر کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1538
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَنْذِرُوا , فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا , وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , كَرِهُوا النَّذْرَ , وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: مَعْنَى الْكَرَاهِيَةِ فِي النَّذْرِ: فِي الطَّاعَةِ وَالْمَعْصِيَةِ , وَإِنْ نَذَرَ الرَّجُلُ بِالطَّاعَةِ فَوَفَّى بِهِ , فَلَهُ فِيهِ أَجْرٌ , وَيُكْرَهُ لَهُ النَّذْرُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ نذر کو مکروہ سمجھتے ہیں،
۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: نذر کے اندر کراہیت کا مفہوم طاعت اور معصیت دونوں سے متعلق ہے، اگر کسی نے اطاعت کی نذر مانی اور اسے پورا کیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجر ملے گا، لیکن یہ نذر مکروہ ہو گی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1538]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأیمان 26 (6692)، صحیح مسلم/النذور 2 (1640)، سنن ابی داود/ الأیمان 21 (3288)، سنن النسائی/الأیمان 25 (3835)، و 26 (3836)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 15 (2123)، (تحفة الأشراف: 140500)، و مسند احمد (2/235، 301، 314، 412، 463) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے، صدقہ و خیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت و مروت کے شایان شان نہیں، یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہتر چیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتا ہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ و خیرات کی نذر مانتا ہے، نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے «واللہ اعلم» ۔
۲؎: اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2123)