2. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ
2. باب: آدمی کے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتہ) دینے کا بیان۔
رکانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق
(بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا:
”تم نے اس سے کیا مراد لی تھی؟
“، میں نے عرض کیا: ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا:
”اللہ کی قسم؟
“ میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے فرمایا:
”تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں،
۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے،
۴- اور علی رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہو گی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،
۶- مالک بن انس قطعی طلاق
(بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہو چکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہو گی،
۷- شافعی کہتے ہیں: اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہو گی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہو گی۔
[سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1177]