ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 780]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14433) (صحیح) وأخرجہ: کل من: صحیح مسلم/الصیام 28 (1150)، سنن ابی داود/ الصیام 75 (2460)، سنن ابن ماجہ/الصیام 47 (1750)، مسند احمد (2/242)، سنن الدارمی/الصیام 31 (1778)، من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے، کیونکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود رضی الله عنہ سے وارد ہے جس میں «وإن كان صائما فليدع بالبركة» کے الفاظ آئے ہیں، باب کی حدیث میں «فلیصل» کے بعد «يعني الدعاء» کے جو الفاظ آئے ہیں یہ «فلیصل» کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے، مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی الله عنہا کے گھر میں پڑھی تھی۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے میں روزہ سے ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 781]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 13671) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”میں روزہ سے ہوں“ کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے، اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے، لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی اور کدورت راہ نہ پائے۔