ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، جنادہ ازدی، جویریہ، انس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدمی کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص کر لے، نہ اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ اس کے بعد۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 743]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصیام 24 (1144)، سنن ابی داود/ الصیام 50 (2420)، سنن ابن ماجہ/الصیام 37 (1723)، (تحفة الأشراف: 12502) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصیام 63 (1985)، و مسند احمد (2/458) من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: اس ممانعت کی وجہ کیا ہے، اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے، اس کی صراحت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «يوم الجمعة يوم عيد فلا تجعلوا يوم عيدكم صيامكم إلا أن تصوموا قبله وبعده» جمعہ کا دن عید کا دن ہے، اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو، إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل - جمعرات کا بھی- روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد سنیچر کے دن کا بھی۔ اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «من كان منكم متطوعاً من الشهر فليصم يوم الخميس ولا يصم يوم الجمعة فإنه يوم طعام وشراب» تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو، وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے، جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے، اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔