عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزر جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں سراء بنت نبھان غنویہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 631]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6731) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے اگلی حدیث اور مولف کا کلام، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء 787، وتراجع الألبانی 503)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1792)
قال الشيخ زبير على زئي: (631) إسناده ضعيف جدًا عبدالرحمن بن زيد بن أسلم : ضعيف (تق:3865) وقال الھيثمي :والأكثر على تضعيفه (مجمع الزوائد 21/1 وقال ابن الملقن: ضعفه الجمھور (خلاصه البدر المنير:11) وقال الحاكم : ”روي عن أبيه أحاديث موضوعة ، لا يخفى على من تأملھا من أھل الصنعة أن الحمل فيھا عليه“ (المدخل إلى الصحيح ص 154) فھو ضعيف جدًا فيما يرويه عن أبيه وللحديث شواھد ضعيفة ۔ وكان ابن عمر يقول : لا تجب في مال زكوة حتي يحول عليه الحول (الموطا 246/1 ح 584) وسنده صحيح وانظر سنن الترمذي (632)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر زکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزر جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ (موقوف) حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی (مرفوع) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ۲- ایوب، عبیداللہ بن عمر اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً (ہی) روایت کی ہے۔ ۳- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں، احمد بن حنبل، علی بن مدینی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں، ۴- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے، جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنا مال ہو جس میں زکاۃ واجب ہو تو حاصل شدہ مال میں بھی زکاۃ واجب ہو گی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو تو کمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہو گی جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، اور اگر اسے (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے) مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملا تو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہو گئی ہے، مال مستفاد کی بھی زکاۃ نکالے گا سفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 632]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7595) (صحیح الإسناد) (یہ اثر عبد اللہ بن عمر کا قول ہے، یعنی موقوف ہے، جو مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف، وهو فى حكم المرفوع