سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو «بسم اللہ» کر کے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سند عمدہ ہو، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگر کوئی قصداً «بسم اللہ» کہنا چھوڑ دے تو وہ دوبارہ وضو کرے اور اگر بھول کر چھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو یہ اسے کافی ہو جائے گا، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمٰن کی ہے، یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 25]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 41 (398) (تحفة الأشراف: 4470) مسند احمد (4/70) و (5/381-382) و6/382) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بسم اللہ» کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہو گا، کیونکہ «لاوضوئ» سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی، بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر «بسم اللہ» کیے بھی وضو صحیح ہو جائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہو گا، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ «لا» کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے، اور ”نفی کمال“ کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے، ”نفی کمال“ کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں، امام احمد کے نزدیک راجح «بسم اللہ» کا وجوب ہے۔