عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر بیع کرے ۱؎ اور نہ ہی کوئی آدمی دوسرے آدمی کے شادی کے پیغام پر اپنا پیغام دے۔ جب تک (پہلا) پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے ۲؎ یا وہ دوسرے کو پیغام دینے کی اجازت نہ دیدے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3245]
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی دکاندار کا سودا طے ہو رہا ہو تو پڑوسی دکاندار خریدار کو یہ کہہ کر نہ بلائے کہ میں تمہیں اس سے کم قیمت پر سامان دوں گا۔ ۲؎: یعنی دوسری جانب سے انکار ہو گیا یا وہ خود ہی دستبردار ہو گیا ہو۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا (کہ کیسے کیا ہوا؟) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی (اچھا نہ تھا) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ (ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز) نہ لوں گی، (میرے شوہر کے) وکیل نے کہا: نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ (یہ سن کر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس (بات چیت) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”(وہ سچ کہتا ہے) تیرے لیے نفقہ و سکنی (کا حق) نہیں ہے ۱؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کر لو“۲؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔ (پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو کیونکہ وہ نابینا ہیں ۳؎، پھر جب (عدت پوری ہو جائے اور) تو دوسروں کے لیے حلال ہو جاؤ تو مجھے آگاہ کرو“، چنانچہ جب میں حلال ہو گئی (اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہو گئی) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے؟“ میں نے کہا: معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ۴؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے (اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے)۵؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو“ فاطمہ کہتی ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کر لینے کے لیے کہا تو میں نے (آپ کی بات رکھ لی اور) ان سے شادی کر لی۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3246]
وضاحت: ۱؎: نفقہ وسکنی (اخراجات اور رہائش) کا حق ان کے لیے ہے جن سے شوہر کو رجوع کا حق و اختیار رہتا ہے، بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی رہائش اسی لیے رکھی جاتی ہے تاکہ اس کی مجبوری و بےقراری دیکھ کر اسے رحم آئے، اور رجوع کرے اور دونوں اعتدال و توازن اور اخلاص و محبت کی زندگی گزارنے لگیں۔ ۲؎: فلانہ سے مراد ام شریک رضی الله عنہا ہیں وہ ایک مہمان نواز خاتون تھیں۔ ۳؎: ان کے گھر میں رہتے وقت اگر دوپٹہ سر سے کھسک جائے یا سونے میں جسم کا کوئی حصہ کھل جائے تو رسوائی اور شرمندگی نہ ہو گی۔ ۴؎: اس سے مراد ابوالجہم رضی الله عنہ ہیں۔ ۵؎: یعنی عورتوں کے حقوق کی بابت وہ لاخیرا ہے، ایک روایت میں ان کے متعلق تو «ضرّاب للنّسائ»(عورتوں کی بڑی پٹائی کرنے والا) اور «لا يَضَعُ عصاه عن عاتقه»(اپنے کندھے سے لاٹھی نہ اتارنے والا) جیسے الفاظ وارد ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے تحت اس طرح کے اوصاف بیان کرنا جائز ہے۔