سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دن سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر قیام فرمایا کہ گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں، اور پھر رکوع اتنا لمبا کیا کہ گویا اس سے اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں، پھر سر مبارک اٹھایا تو قومہ میں بھی اتنی دیر کھڑے رہے کہ قریب نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں، پھر آپ نے سجدہ سے سر مبارک اٹھایا تو اتنا طویل جلسہ کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ دوسرا سجدہ کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سجدہ بھی اتنا طویل کیا کہ قریب نہیں تھا کہ آپ سجدہ سے سر مبارک اٹھائیں۔ آپ اس دوران آہیں بھرتے اور روتے رہے اور فرماتے اے میرے پروردگار! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب میں ان میں موجود ہوں تو ان کو عذاب نہیں کرے گا؟، اے میرے پروردگار کیا تو نے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک یہ تجھ سے استغفار کرتے رہیں گے تو ان کو عذاب نہیں دے گا اور ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا، آپ کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”یقیناً سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا جب یہ گہنا جائیں تو فوراً اللہ تعالٰی عزوجل کی یاد کی طرف دوڑو۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي بُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 323]