علی بن ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک سواری کا جانور آپ کے لئے لایا گیا تاکہ آپ اس پر سوار ہوں، انہوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللہ کہا اور جب سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو الحمد اللہ کہا پھر یہ دعا پڑھی «سبحان الذى سخرلنا هذا وما كنا له مقرنين وانا الي ربنا لمنقلبون» کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس کو مسخر کر دیا، ورنہ ہم اسے مسخر نہ کر سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پھر تین مرتبہ الحمد اللہ، تین بار اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی، «سبحانك اني ظلمت نفسي فاغفرلي فانه لا يغفر الذنوب الا انت» کہ اے اللہ تو پاک ہے میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے علاوہ گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرتا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے، میں نے عرض کیا: امیر المومنین! آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا انہوں نے بھی اسی طرح کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، تو میں نے بھی عرض کیا تھا، اللہ کے رسول! آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرا رب اپنے بندے پر اس وقت خوش ہوتا جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب، میرے گناہ معاف کر دے، تیرے سوا کوئی میرے گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3446وقال: حسن صحيح)، سنن ابي داود (2602)» امام ابواسحاق السبیعی نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [ديكهئے السنن الكبري للبيهقي 252/5] اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ایسی علت کے ساتھ معلول قرار دیا جو علت قادحہ نہیں ہے، نیز اس حدیث کے شواہد بھی ہیں۔