الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
غلام آزاد کرنے کا بیان
2. رشتہ ولاء اسی کا ہے جو غلام آزاد کرے
حدیث نمبر: 519
160- مالك عن ربيعة عن القاسم بن محمد عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: كان فى بريرة ثلاث سنن، فكانت إحدى السنن الثلاث أنها أعتقت فخيرت فى زوجها. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الولاء لمن أعتق“، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم فقرب إليه خبز وأدم من أدم البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ألم أر برمة فيها لحم؟“ فقالوا: بلى يا رسول الله، ولكن ذلك لحم تصدق به على بريرة، وأنت لا تأكل الصدقة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وهو عليها صدقة وهو لنا هدية.“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تین سنتیں ہیں ان تین میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب وہ آزاد کی گئیں تو انہیں اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (جو کہ غلام تھے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہَ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے  اور (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (گھر میں) داخل ہوئے تو  ہانڈی گوشت کے ساتھ ابل رہی تھی  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی تھی جس میں گوشت تھا؟ (گھر والوں نے) کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! لیکن یہ وہ گوشت ہے جو بریرہ کو صدقے میں دیا گیا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس (بریرہ) کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 519]
تخریج الحدیث: «160- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 562/2 ح 1223، ك 29 ب 10 ح 25) التمهيد 48/3، الاستذكار:1143، و أخرجه البخاري (5279) ومسلم (1504/14) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 520
470- وبه: أنها قالت: جاءت بريرة فقالت: إني كاتبت أهلي على تسع أواق، فى كل عام أوقية، فأعينيني؛ فقالت عائشة: إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون لي ولاؤك فعلت فذهبت بريرة إلى أهلها فقالت لهم ذلك، فأبوا عليها، فجاءت من عند أهلها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا على إلا أن يكون الولاء لهم. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألها فأخبرته عائشة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”خذيها واشترطي الولاء لهم فإنما الولاء لمن أعتق“ ففعلت عائشة. ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال: ”أما بعد فما بال قوم يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مئة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا آئی تو کہا: میں نے اپنی آزادی کے لئے اپنے مالکوں سے نو (9) اوقیہ چاندی پر تحریری معاہدہ کر لیا ہے، میں انہیں ہر سال ایک اوقیہ دوں گی، آپ اس سلسلے میں میری امداد کریں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تمہارے مالک اس پر راضی ہوں تو میں انہیں نقد ادا کر دوں لیکن رشتہ ولاء میرا ہو گا۔ بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی تو انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے انکار کر دیا تو وہ اپنے مالکوں سے (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: میں نے انہیں یہ بات کہی ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے (اور کہا) کہ رشتہ ولایت انہی کا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو پوچھا: (کیا بات ہے؟) پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور ان کا رشتہ ولایت مان لو کیونکہ رشتہ ولایت تو اسی کا ہو گا جو آزاد کرتا ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہو گئے تو حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اما بعد، کیا وجہ ہے کہ لوگ ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ سب سے زیادہ برحق ہے اور اللہ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے اور رشتہ ولاء تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 520]
تخریج الحدیث: «470- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 780/2، 781 ح 1559، ك 38 ب 10 ح 17) التمهيد 160/22، 161، الاستذكار: 1488، و أخرجه البخاري (2168، 2729) من حديث مالك به، ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به .»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح