58- مالك عن ابن شهاب عن سليمان بن يسار عن عبد الله بن عباس أنه قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءته امرأة من خثعم تستفتيه فجعل الفضل بن عباس ينظر إليها وتنظر إليه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر فقالت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن فريضة الله على العباد فى الحج أدركت أبى شيخا كبيرا لا يستيطع أن يثبت على الراحلة أفأحج عنه. قال: نعم. وذلك فى حجة الوداع.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خثم قبیلے کی ایک عورت مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی، فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل بن عباس کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔ اس عورت نے کہا: یا رسول اﷲ! اﷲ تعالی نے بندوں پر اس وقت حج فرض کیا جب میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہو گئے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں!“ اور یہ واقعہ حجتہ الوداع کا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 337]
تخریج الحدیث: «58- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 359/1 ح 815، ك 20، ب 30 ح 97) التمهيد 122/9 وقال: ”هذا حديث صحيح ثابت“ الاستذكار: 765، و أخرجه البخاري (1513) ومسلم (1334) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 338
130- وبه: عن محمد بن سيرين أن رجلا أخبره عن عبد الله بن عباس أن رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إن أمي عجوز كبيرة لا تستطيع أن نركبها على البعير ولا تستمسك، وإن ربطتها خفت أن تموت، أفأحج عنها؟ قال: ”نعم.“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ! میری ماں بہت زیادہ بوڑھی ہیں، ہم انہیں اونٹ پر سوار نہیں کر سکتے اور نہ وہ ٹکتی ہیں، اگر میں انہیں، سواری پر باندھ لوں تو مجھے ڈر ہے کہ وہ مر جائیں گی، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں! “۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 338]
تخریج الحدیث: «130- الموطأ (رواية الجوهري:302) التمهيد 382/1، والرجل الخبر لابن سيرين هو يحيي بن ابي إسحاق رواه عن سليمان بن يسار عن ابن عباس به، واللحديث شاهد قوي عنه الطحاوي فى مشكل الآثار (الطبعة القديمه 220/3) و به صح الحديث وانظر التمهيد (384/1)»