الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
حج کے مسائل
2. حج کی اقسام کا بیان
حدیث نمبر: 293
38- وبه: عن عائشة أنها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع فأهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا.“ قالت: فقدمت مكة وأنا حائض فلم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة. فشكوت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”انقضي رأسك وامشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة.“ قالت: ففعلت. فلما قضينا الحج أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن أبى بكر إلى التنعيم فاعتمرت. ثم قال: ”هذه مكان عمرتك“، قالت: فطاف الذين أهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا والمروة ثم حلوا ثم طافوا طوافا آخر بعد أن رجعوا من منى لحجهم. وأما الذين أهلوا بالحج أو جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں مکہ آئی تو میں حیض سے تھی پس میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کی سعی کی پھر میں نے اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ (کا عمل) چھوڑ دو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اسی طرح کیا۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا (تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا تو میں نے عمرہ کر لیا پھر آپ نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے۔ انہوں نے کہا: جنہوں نے عمرے کی لبیک کہی تھی انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی پھر انہوں نے احرام کھول دئیے، پھر انہوں نے منیٰ سے لوٹنے کے بعد حج کا طواف کیا۔ جن لوگوں نے حج (افراد) کی لبیک کہی تھی یا حج اور عمرے (قران) کی لبیک کہی تھی تو انہوں نے (صفا مروہ کے درمیان) صرف ایک طواف کیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 293]
تخریج الحدیث: «38- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 410/1، 411ح 951 ك20 ب74ح 223، وعنده: وامتشطى) التمهيد 198/8، الاستذكار: 892، و أخرجه البخاري (1556) ومسلم (1211/111) من حديث مالك به .»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 294
67- مالك عن ابن شهاب عن محمد بن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن عبد المطلب، أنه حدثه أنه سمع سعد بن أبى وقاص والضحاك بن قيس عام حج معاوية بن أبى سفيان وهما يذكران التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال الضحاك: لا يصنع ذلك إلا من جهل أمر الله تعالى. فقال سعد: بئس ما قلت يا ابن أخي، قال الضحاك: إن عمر بن الخطاب قد نهى عن ذلك. فقال: قد صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وصنعناها معه.
محمد بن عبداﷲ بن الحارث بن نوفل بن عبد المطلب رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا، ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ حج تمتع وہی کرتا ہے جو اﷲ تعالی کے حکم کے بارے میں جاہل ہے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بھتیجے! تم نے غلط بات کہی ہے، ضحاک نے کہا: بے شک عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے تو انہوں سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اجازت دی ہے اور ہم نے آپ کے ساتھ یہ حج تمتع کیا ہے ​۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 294]
تخریج الحدیث: «67- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 344/1 ح 778، ك 20 ب 19 ح 60) التمهيد 341/8، 342، الاستذكار: 728، و أخرجه الترمذي (823) والنسائي (152/5 ح 2735) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”هٰذا حديث حسن صحيح“ .»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده حسن والحديث صحيح

حدیث نمبر: 295
89- وبه: أنها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع فمنا من أهل بعمرة، ومنا من أهل بحج وعمرة، ومنا من أهل بالحج، فأهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج. فأما من أهل بعمرة فحل، وأما من أهل بالحج أو جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع والے سال (مدینہ طیبہ سے) نکلے۔ ہم میں سے کوئی عمرے کی لبیک کہہ رہا تھا اور کوئی حج اور عمرے (دونوں) کی اور کوئی (صرف) حج کی لبیک کہہ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی لبیک کہی۔ جس نے (صرف) عمرے کی لبیک کہی تھی تو وہ (عمرہ کر کے)حلال ہو گیا یعنی اس نے احرام کھول دیا اور جس نے حج کی یا حج اور عمرے دونوں کی لبیک کہی تھی تو وہ قربانی والے دن تک حالت احرام میں رہا (اس نے قربانی کے بعد احرام کھولا)۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 295]
تخریج الحدیث: «89- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 335/1، ح 753، ك 20 ب 11 ح 36) التمهيد 95/13، الاستذكار: 703، و أخرجه البخاري (1562) ومسلم (1211/118) من حديث مالك به والحديث مختصر منه.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 296
222- وبه: عن حفصة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شأن الناس حلوا بعمرة ولم تحلل أنت من عمرتك؟ قال: ”إني لبدت رأسي وقلدت هديي، فلا أحل حتى أنحر.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی (سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو عمرہ کر کے احرام کھول دئیے ہیں اور آپ نے اپنے عمرے سے (ابھی تک) احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے اپنے بال چپکا لئے تھے اور قربانی کے جانورروں کو مقرر کر لیا تھا، لہٰذا میں قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولوں گا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 296]
تخریج الحدیث: «222- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 3941 ح 908، ك 20 ب 58 ح 80) التمهيد 297/15، الاستذكار:848، و أخرجه البخاري (1566) ومسلم (1229) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح