363- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”رأس الكفر نحو المشرق، والفخر والخيلاء فى أهل الخيل والإبل الفدادين أهل الوبر، والسكينة فى أهل الغنم.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کفر کا سر مشرق کی طرف ہے، فخر اور تکبر گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں اور بلند آواز سے بولنے والے خانہ بدوشوں میں ہے اور سکون بکریاں رکھنے والوں میں ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: «363- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 970/2 ح 1876، ك 54 ب 6 ح 15) التمهيد 142/18، الاستذكار: 1812، وأخرجه البخاري (3301)، ومسلم (52/85) من حديث مالك به، سقط من الأصل و استدركته من رواية يحيي بن يحيي.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
حدیث نمبر: 233
318- مالك عن عبد الله بن أبى بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن حميد بن نافع عن زينب بنت أبى سلمة أنها أخبرته بهذه الأحاديث الثلاثة، قال: فقالت زينب: دخلت على أم حبيبة زوج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي أبوها أبو سفيان بن حرب، فدعت أم حبيبة بطيب فيه صفرة خلوق أو غير ذلك، فدهنت منه جارية، ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله مالي بالطيب من حاجة غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا.“ فقالت زينب: ثم دخلت على زينب بنت جحش حين توفي أخوها، فدعت بطيب فمست منه، ثم قالت: والله مالي بالطيب من حاجة، غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا. قالت زينب: وسمعت أمي أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها، أفتكحلها؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا“ مرتين أو ثلاثا كل ذلك يقول: ”لا“ ثم قال: ”إنما هي أربعة أشهر وعشر، وقد كانت إحداكن فى الجاهلية ترمي بالبعرة عند رأس الحول.“ قال حميد: فقلت لزينب: وما ترمي بالبعرة عند رأس الحول؟، فقالت زينب: كانت المرأة إذا توفي عنها زوجها، دخلت حفشا ولبست شر ثيابها، ولم تمس طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة حمار أو شاة أو طير، فتفتض به، فقلما تفتض بشيء إلا مات، ثم تخرج فتعطى بعرة فترمي بها، ثم تراجع بعد ما شاءت من طيب أو غيره. قال مالك: تفتض، تمسح به، والحفش: الخص. كمل حديث عبد الله بن أبى بكر.
حمید بن نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تین حدیثیں بتائیں: زینب نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ زوجہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، پھر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے زرد رنگ کی خوشبو منگوائی جس میں زعفران یا کوئی دوسری چیز ملی ہوئی تھی اور وہ خوشبو (تیل کے ساتھ) اپنی لونڈی کو لگائی پھر (باقی ماندہ حصے سے) اپنے رخساروں پر مل لی اور فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی، زینب (بنت ابی سلمہ) نے فرمایا: پھر میں زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جن کا بھائی فوت ہوا تھا، پھر انہوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں سے لگا کر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی زینت (بنت ابی سلمہ) نے کہا: میں نے اپنی امی اُم سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں درد ہے تو کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو چار مہینے اور دس دن ہیں زمانہ جاہلیت میں تم عورتوں میں سے شوہر کے مرنے والی عورت ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینک دیتی تھی۔“ حمید بن نافع نے کہا: میں نے زینب (بنت ام سلمہ) سے پوچھا: سال گزرنے پر مینگنی پھینک دینے کا کیا مطلب ہے؟، تو زینب نے کہا: جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو وہ ایک گندی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی اور گندے کپڑے پہن لیتی تھی، وہ نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی دوسری چیز (صفائی کے لیے) استعمال کرتی، پھر جب ایک سال گزر جاتا تو کوئی جانور: گدھا، بکری یا پرندہ لایا جاتا تو اسے اپنے جسم سے لگاتی، وہ جس جانور کو اپنے جسم سے لگاتی تو (عام طور پر) مر جاتا تھا، پھر وہ (کوٹھڑی سے) باہر نکلتی تو اسے (اونٹ کی) مینگنی (یا لید) دی جاتی تو وہ اسے پھینکتی تھی پھر اس کے بعد وہ خوشبو وغیرہ لگاتی تھی۔، امام مالک نے کہا: «تفتض» کا مطلب ہے «تمسح»(چھوتی تھی) اور «حفش»(چھوٹی سی بند کوٹھڑی والے) قلعہ کو کہتے ہیں، عبداللہ بن ابی بکر کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 233]
تخریج الحدیث: «318- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 596/2-298 ح 1306، ك 29 ب 35 ح 101-103) التمهيد 310/17، 311، الاستذكار: 1224-1226، و أخرجه البخاري (5334-5337) و مسلم (1486-1489) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء الأصل: ”عشرا“!، وفي رواية يحيي بن يحيي: ولحفش البيت الردي.»