207- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار، يقال له: هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے تھا تو اسے جنت کا ٹھکانا اور اگر وہ جہنمیوں میں سے تھا تو اسے جہنم کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: جب اللہ قیامت کے دن تجھے دوبارہ اٹھائے گا تو یہ تیرا ٹھکانا ہو گا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 225]
تخریج الحدیث: «207- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 239/1 ح 567، ك 16 ب 16 ح 47) التمهيد 103/14، الاستذكار:521، و أخرجه البخاري (1379) ومسلم (2866) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
حدیث نمبر: 226
337- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله: إذا هو مات فأحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وأنت أعلم، قال: فغفر الله له.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: اگر وہ مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی سمندر میں اڑا دیں کیونکہ اگر اللہ نے اس پر سختی (باز پرس) کی تو اسے ایسا عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا پھر اللہ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے (بھی) اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے پھر اللہ نے فرمایا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ تو اس نے کہا: اے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 226]
تخریج الحدیث: «337- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 240/1 ح 571، ك 16 ب 16 ح 51) التمهيد 37/18، الاستذكار: 525، و أخرجه البخاري (7506) ومسلم (2756) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
حدیث نمبر: 227
471- وبه: أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت، أفأتصدق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم، فتصدق عنها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ تو انہوں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 227]
تخریج الحدیث: «471- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 760/2 ح 1528، ك 36 ب 41 ح 53) التمهيد 153/22، الاستذكار: 1457، و أخرجه البخاري (2760) من حديث مالك به، ومسلم (1004/51 بعد ح 1630) من حديث هشام بن عروة به وصححه ابن خزيمة (2500) وابن حبان (المموارد: 857)»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
حدیث نمبر: 228
495- وبه: أن يهودية جاءت تسألها، فقالت لها: أعاذك الله من عذاب القبر. فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيعذب الناس فى قبورهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله من ذلك، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا، فخسف بالشمس فرجع ضحى، فمر بين ظهراني الحجر، ثم قام يصلي وقام الناس وراءه فقام قياما طويلا، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد، ثم انصرف فقال ما شاء الله أن يقول، ثم أمرهم أن يتعوذوا من عذاب القبر.
اور اسی سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان سے مانگنے آئی تو کہا: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے اللہ کی پناہ۔“، پھر ایک صبح آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے، سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر سے پہلے واپس آ کر حجروں کے پاس سے گزرے، پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا، پھر بہت لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر (دوبارہ) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا۔ پھر (دوسرا) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اٹھ کر لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا پھر (نماز سے) فارغ ہوئے تو جو اللہ نے چاہا بیان کیا پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 228]
تخریج الحدیث: «495- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 187/1، 188 ح 447، ك 12 ب 1 ح 3) التمهيد 391/23، الاستذكار: 416، و أخرجه البخاري (1049، 1050) من حديث مالك به.»