سلیمان بن مہران اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے کہا کہ آپ عبداللہ بن مسعود کی سند بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: جب میں تم سے کہوں: «حدثنا رجل عن عبداللہ بن مسعود»(ہم سے ایک آدمی نے بیان کہ اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی) تو یہ ایسی سند ہے جس میں میں نے راوی کا نام لیا ہے، اور جب میں کہوں: «قال عبداللہ» تو وہ کئی رواۃ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
شعبہ سے آیا ہے کہ انہوں نے ابوالزبیر مکی، عبدالملک بن ابی سلیمان، اور حکیم بن جبیر کی تضعیف کی، اور ان سے روایت ترک کر دی، پھر شعبہ نے حفظ و عدالت میں ان سے کم درجے کے رواۃ سے روایت کی، یعنی جابر جعفی، ابراہیم بن مسلم ہجری، محمد بن عبیداللہ العرزمی اور کئی راوی جو حدیث میں ضعیف قرار دیے گئے ہیں سے روایت کی۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
امیہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے کہا: آپ عبدالملک بن ابی سلیمان کو چھوڑ کر محمد بن عبیداللہ عرزمی سے روایت کرتے ہیں؟ کہا: ہاں۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے پہلے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی پھر انہیں چھوڑ دیا، اور کہا جاتا ہے کہ ان کے چھوڑنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بسند «عطاء بن ابی رباح عن جابر بن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم » یہ حدیث روایت کی: «الرَّجُلُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا» ۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے نکل کر آپ کی احادیث کا مذاکرہ کیا، تو ابوالزبیر ان احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے آگے کرتے تھے، تاکہ میں ان کے لیے حدیث یاد کر لوں۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
ایوب سختیانی کہتے ہیں: ہم سے ابوالزبیر نے حدیث بیان کی، اور ابوالزبیر اور ابوالزبیر، اور ابوالزبیر سفیان ثوری اپنا ہاتھ پکڑ کر یہ کہہ رہے تھے۔ ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حفظ حدیث اور روایت حدیث میں ابوالزبیر قوی اور پختہ ہیں۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3962]
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے حکیم بن جبیر کے بارے میں سوال کیا تو کہا: صدقہ والی حدیث کی روایت کی وجہ سے شعبہ نے ان سے روایت ترک کر دی، یعنی ابن مسعود کی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جس نے سوال کیا اور اس کے پاس موجود مال اس کو دوسروں سے بے نیاز کر دینے والا ہے، تو وہ قیامت کے دن ایسے ہو گا کہ اس کے چہرہ پر خراش ہو گی، کہا گیا: اللہ کے رسول! اسے کون سی چیز دوسروں سے بے نیاز کرے گی؟ فرمایا: پچاس درہم (چاندی کے) یا اس قیمت کا سونا۔“[سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3963]
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: سفیان ثوری اور زائدہ نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3963]
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن آدم نے، یحییٰ نے سفیان ثوری سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ حکیم بن جبیر نے صدقہ والی حدیث روایت کی۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3963]
یحیی بن آدم کہتے ہیں: شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا: اگر صدقہ والی حدیث حکیم بن جبیر کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہوتی تو کیا حکم ہوتا؟۔ سفیان ثوری نے جواب دیا: حکیم کو کیا ہو گیا کہ شعبہ نے ان سے روایت نہیں کی؟ عبداللہ بن عثمان نے کہا: ہاں! (ایسے ہی ہے، شعبہ نے حکیم سے روایت نہیں کی) تو سفیان ثوری نے کہا: میں نے زبید کو یہ حدیث محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے۔ [سنن ترمذي/کتاب العلل/حدیث: Q3963]