خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ۱؎، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آور ہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو“۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3853]
ہم سے ہناد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، اور ابن ادریس نے اعمش سے، اعمش نے ابووائل شفیق بن سلمہ سے اور ابووائل نے خباب بن ارت رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3853M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کے حکم سے ہجرت کی، ورنہ ہجرت میں آپ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی الله عنہ تھے، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپ کے آگے پیچھے ہجرت کی اور بالآخر سب مدینہ پہنچے۔
۲؎: یعنی اللہ کے اپنے اوپر آپ خود سے واجب کرنے پر، ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کر سکتا ہے، یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے، اور اللہ کا وعدہ سچا پکا ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کو موقع نہیں ملا، ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی۔
۴؎: چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہوا تھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔