سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن ابی خالد سے قیس بن حازم کے واسطہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما“ اور یہ زیادہ صحیح ہے (یعنی: مرسل روایت زیادہ صحیح ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3751]
وضاحت: ۱؎: یہ سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بموجب مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ہے، اور ایک بہت بڑی فضیلت ہے۔ آثار و روایات میں سعد رضی الله عنہ کی بہت ساری دعاؤں کا ذکر ملتا ہے جو ان کی زندگی میں ہی پوری ہو گئیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6116)
قال الشيخ زبير على زئي: (3751) إسناده ضعيف إسماعيل بن أبى خالد مدلس وعنعن (د 2930) وللحديث شواهد
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مجالد ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سعد بن ابی وقاص قبیلہ بنی زہرہ کے ایک فرد تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ قبیلہ بنی زہرہ ہی کی تھیں، اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ میرے ماموں ہیں“۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3752]
علی بن زید اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کے علاوہ کسی اور کے لیے اپنے باپ اور ماں کو جمع نہیں کیا ۱؎، احد کے دن آپ نے سعد سے فرمایا: ”تم تیر مارو میرے باپ اور ماں تم پر فدا ہوں، تم تیر مارو اے جوان پٹھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث متعدد لوگوں سے روایت کی گئی ہے ان سب نے اسے یحییٰ بن سعید سے، اور یحییٰ نے سعید بن مسیب کے واسطہ سے سعد رضی الله عنہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3753]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2828 (صحیح) (متن میں ”الغلام الحزور“ کا ذکر منکر ہے، سند میں حسن بن الصباح البزار راوی کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں: صدوق یہم یعنی ثقہ ہیں، اور حدیث بیان کرنے میں وہم کا شکار ہو جاتے ہیں، اور الغلام الحزور کی زیادتی اس کی دلیل ہے)»
وضاحت: ۱؎: زبیر بن عوام رضی الله عنہ کے مناقب میں گزرا کہ ان کے لیے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے «فدان ابی وامی»، کہا، دونوں میں یہ تطبیق دی جاتی ہے کہ علی رضی الله عنہ کو زبیر کے بارے میں یہ معلوم نہیں تھا، یا یہ مطلب ہے کہ احد کے دن کسی اور کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا۔
قال الشيخ الألباني: منكر - بذكر الغلام الحزور - وقد مضى برقم (2986) // (535 / 2998) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3753/2) إسناده ضعيف / تقدم:2829
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث عبداللہ بن شداد بن ہاد سے بھی روایت کی گئی ہے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3754]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2830 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یوں فرمایا: ”میرے باپ اور میری ماں تم پر فدا ہوں“۔
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ اور ماں کو سعد کے علاوہ کسی اور پر فدا کرتے نہیں سنا، میں نے احد کے دن آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”سعد تم تیر مارو، میرے باپ اور ماں تم پر فدا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3755]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2828 (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا: ”کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا“، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھناہٹ کی آواز سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد رضی الله عنہ نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے میں آپ کی نگہبانی کے لیے آیا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3756]
وضاحت: ۱؎: یعنی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «رجل صالح» کے مصداق سعد رضی الله عنہ قرار پائے، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو «رجل صالح» قرار دیں ہیں، «رضی الله عنہ وأرضاہ» ۔