ابوہریرہ رضی الله عنہ یا ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں: آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات، تو وہ لوگ آ جاتے ہیں، اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں، اللہ ان سے پوچھتا ہے:
”میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو؟
“ وہ کہتے ہیں: ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں، وہ کہتا ہے:
”کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے
(یا بن دیکھے ہوئے ہی میری عبادت و ذکر کئے جا رہے ہیں)“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اللہ کہتا ہے:
”اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت و کیفیت ہو گی؟
“ وہ جواب دیتے ہیں، وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں، تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے، وہ پوچھتا ہے:
”وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں؟
“ فرشتے کہتے ہیں: وہ لوگ جنت مانگتے ہیں، اللہ پوچھتا ہے
”کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے؟
“ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے:
”اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟
“ وہ کہتے ہیں: ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی، وہ پھر پوچھتا ہے:
”وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں
“، وہ کہتے ہیں: جہنم سے، وہ پوچھتا ہے:
”کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے؟
“ وہ کہتے ہیں: نہیں، وہ پوچھتا ہے:
”اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو گی؟
“ وہ کہتے ہیں: اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے، زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے، پھر اللہ کہے گا
”میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کر دی ہے
“، وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں خطاکار شخص بھی ہے، ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا،
(اور بیٹھ گیا تھا) اللہ فرماتا ہے،
”یہ ایسے
(معزز و مکرم) لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا
(ہم نے اسے بھی بخش دیا)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آئی ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3600]