علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى»۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اسے «وما خلق» پڑھوں (یعنی «وما خلق والذكر والأنثى») تو میں ان کی بات نہ مانوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبداللہ بن مسعود کی قرأت بھی اسی طرح ہے: «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والأنثى»[سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2939]
وضاحت: ۱؎: مشہور قراءت ہے «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى وما خلق الذكر والأنثى» حدیث میں مذکور قراءت اس میں مذکور اشخاص ہی کی ہے، ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے، عثمان رضی الله عنہ کے قراءت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔