وضاحت: ۱؎: یہی مشہور قراءت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے «مُذْ تَکِر»(بروزن «مُجْتَنِب» تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اور ذال کو دال میں مدغم کر دیا تو «مُدَّکِر» ہو گیا، بعض قراء نے «ُمُذَّکِر»(ذال معجم کے ساتھ) پڑھا ہے بہرحال معنی ہے: ”پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا“(القمر: ۴۰)۔