ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے“۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2502]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأدب 40 (4875) (تحفة الأشراف: 16132)، و مسند احمد (6/189) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے، اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4853 و 4857 / التحقيق الثانى) ، غاية المرام (427)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2503]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4857 / التحقيق الثانى)