ام المؤمنین حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2412]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3974) (تحفة الأشراف: 15877) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن یزید بن خنیس“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3974) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861) ، ضعيف الجامع الصغير (4283) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2412) إسناده ضعيف / جه 3974 أم صالح لا يعرف حالها (تق: 8740)
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی الله عنہ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی الله عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان رضی الله عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی الله عنہ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، تو سلمان نے ان سے کہا: سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا: ”تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو“، اس کے بعد دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”سلمان نے سچ کہا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2413]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں: ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔