الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
17. باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الأَمَانَةِ
17. باب: امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2179
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا، وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا: أَنَّ " الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ "، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَةِ، فَقَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ نَوْمَةً، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفَطَتْ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ أَخَذَ حَصَاةً فَدَحْرَجَهَا عَلَى رِجْلِهِ، قَالَ: فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا يَكَادُ أَحَدُهُمْ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَحَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَأَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، قَالَ: وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَمَا أُبَالِي أَيُّكُمْ بَايَعْتُ فِيهِ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا ۳؎، جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ (پھپھولا) پڑ جاتا ہے، تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا، پھر حذیفہ رضی الله عنہ ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیرنے لگے اور فرمایا: لوگ اس طرح ہو جائیں گے کہ خرید و فروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دار نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہا جائے گا: فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار آدمی ہے، اور کسی آدمی کی تعریف میں یہ کہا جائے گا: کتنا مضبوط شخص ہے! کتنا ہوشیار اور عقلمند ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہ ہو گا، حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میرے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ خرید و فروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا، اگر میرا فریق مسلمان ہوتا تو اس کی دینداری میرا حق لوٹا دیتی اور اگر یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردار میرا حق لوٹا دیتا، جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2179]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق 35 (6497)، والفتن 13 (7086)، والإعتصام 3 (7276)، صحیح مسلم/الإیمان 64 (143) (تحفة الأشراف: 3328) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا ظہور ہو چکا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی، اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تشریح و تفسیر خود قرآن سے اور پھر سنت و حدیث نبوی سے سمجھنی چاہیئے، اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہے رضی الله عنہم اجمعین چوتھے درجہ میں تابعین و تبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (۲۱۵۶) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہو جاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہو گا، گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہٰ کے برابر رہ گئی تھی، کیونکہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح