تمیم داری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اس مشرک کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (مسلمان) اس (نو مسلم) کی زندگی اور موت کا میں تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف عبداللہ بن وہب کی روایت سے جانتے ہیں، ان کو ابن موہب بھی کہا جاتا ہے، یہ تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے عبداللہ بن وہب اور تمیم داری کے درمیان قبیصہ بن ذویب کو داخل کیا ہے جو صحیح نہیں، یحییٰ بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند میں قبیصہ بن ذویب کا اضافہ کیا ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے، ۳- بعض لوگوں نے کہا ہے: اس کی میراث بیت المال میں رکھی جائے گی، شافعی کا یہی قول ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (اس) حدیث سے استدلال کیا ہے «أن الولاء لمن أعتق»”حق ولاء (میراث) اس شخص کو حاصل ہے جو آزاد کرے“۔ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2112]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفرائض 22 (تعلیقات في ترجمة الباب) سنن ابی داود/ الفرائض 13 (2918)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 18 (2752) (تحفة الأشراف: 2052)، و مسند احمد (4/102، 103)، وسنن الدارمی/الفرائض 34 (2076) (حسن صحیح)»