ام کلثوم بنت عقبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1938]
وضاحت: ۱؎: لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1196) ، الصحيحة (545)
اسماء بنت یزید رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کر لے، دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا“۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1939]
داود بن ابی ہند نے یہ حدیث شہر بن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن اس میں ”اسماء رضی الله عنہا“ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۳- اس باب میں ابوبکر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1939M]