عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «تضمیر» کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے، اور جو «تضمیر» کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کود گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ثوری کی روایت سے یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1699]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑ دوڑ، تیر اندازی، اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں، حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ، میزائل، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کا تجربہ حاصل کیا جائے، ساتھ ہی بندوق توپ اور ہر قسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔
وضاحت: ۱؎: بشرطیکہ یہ انعام کا مال مقابلے میں حصہ لینے والوں کی طرف سے نہ ہو، اگر ان کی طرف سے ہے تو یہ قمار و جوا ہے جو جائز نہیں ہے، معلوم ہوا کہ مقررہ انعام کی صورت میں مقابلے کرانا درست ہے، لیکن یہ مقابلے صرف انہی کھیلوں میں جائز ہیں، جن کے ذریعہ نوجوانوں میں جنگی و دفاعی ٹریننگ ہو، کبوتر بازی، غلیل بازی، پتنگ بازی وغیرہ کے مقابلے تو سراسر ذہنی عیاشی کے سامان ہیں، موجودہ دور کے کھیل بھی بیکار ہی ہیں۔