بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے، اس کے بعد آپ فرماتے: اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں جہاد کرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کر لو اور ان کے ساتھ لڑائی سے باز رہو: ان کو اسلام لانے اور اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو، اور ان کو بتا دو کہ اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو ان کو بتا دو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان کے اوپر وہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں: مال غنیمت اور فئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، پھر اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے جہاد شروع کر دو، جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ دو تو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ نہ دو، بلکہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پناہ دو، (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لیے کہ اگر تم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا عہد توڑتے ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑو، اور جب تم کسی قلعے والے کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے فیصلہ پر اتارو تو ان کو اللہ کے فیصلہ پر مت اتارو بلکہ اپنے فیصلہ پر اتارو، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے سلسلے میں اللہ کے فیصلہ پر پہنچ سکو گے یا نہیں“، آپ نے اسی طرح کچھ اور بھی فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں نعمان بن مقرن رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1617]
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر کفار و مشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر، ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرنا چاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے، یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہو جاتے ہیں۔ حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طور پر اپنانا بحث و مباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔
اس سند سے بھی بریدہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے: «فإن أبوا فخذ منهم الجزية فإن أبوا فاستعن بالله عليهم» یعنی ”اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لو، پھر اگر (جزیہ دینے سے بھی) انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو“۔ وکیع اور کئی لوگوں نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے، محمد بن بشار کے علاوہ دوسرے لوگوں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت کی ہے اور اس میں جزیہ کا حکم بیان کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1617M]
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے وقت ہی حملہ کرتے تھے، اگر آپ اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے، ایک دن آپ نے کان لگایا تو ایک آدمی کو کہتے سنا: «الله أكبر الله أكبر»، آپ نے فرمایا: ”فطرت (دین اسلام) پر ہے، جب اس نے «أشهد أن لا إله إلا الله» کہا، تو آپ نے فرمایا: ”تو جہنم سے نکل گیا“۔ حسن کہتے ہیں: ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے حماد بن سلمہ نے اسی سند سے اسی کے مثل بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1618]