عیاض بن حمار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اسلام لا چکے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إني نهيت عن زبد المشركين» کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے، جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے، احتمال ہے کہ یہ بعد کا عمل ہے، آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے، پھر آپ نے اس سے منع فرما دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1577]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الخراج والإمارة 35 (3057)، (تحفة الأشراف: 11015)، و مسند احمد (4/162) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے، لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیا جا سکتا ہے، چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔ «واللہ اعلم»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح التعليق على الروضة الندية (2 / 164)