ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ ۱؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرات و دلیری مشہور تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے، ۲- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں، ۴- کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کو حصہ دیا جائے گا، ۵- زہری سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی ایک جماعت کو حصہ دیا جو آپ کے ہمراہ جنگ میں شریک تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1558]
۲؎: بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی بہادری و جرات مندی اس قدر مشہور تھی کہ صحابہ اسے دیکھ کر خوش ہو گئے، پھر اس نے خود ہی صراحت کر دی کہ میں صرف اور صرف مال غنیمت میں حصہ لینے کی خواہش میں شریک ہو رہا ہوں، پھر اس نے جب ایمان نہ لانے کی صراحت کر دی تو آپ نے اس کا تعاون لینے سے انکار کر دیا۔ پھر بعد میں اس نے ایمان کا اقرار کیا اور آپ کی اجازت سے شریک جنگ ہوا، یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں۔ ایک جماعت کا یہ خیال ہے کہ مدد لینا جائز ہے اور بعض کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت مدد لی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اسی طرح بنو قینقاع کے یہود یوں سے بھی مدد لی تھی، بہرحال اسلحہ اور افرادی امداد دونوں کی شدید ضرورت و حاجت کے موقع پر لینے کی گنجائش ہے۔
قال الشيخ الألباني: (حديث عائشة) صحيح، (حديث الزهري) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2832)
قال الشيخ زبير على زئي: (1558) إسناده ضعيف حديث الزھري: ” أن النبى صلى الله عليه وسلم أسھم لقوم من اليھود “ إلخ ضعيف لإرساله والحديث الباقي: ارجع فلن أستعين بمشرك ، كله صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں: گھوڑے کے لیے حصہ مقرر کرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے، اس کو حصہ دیا جائے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1559]