الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
4. باب فِي التَّحْرِيقِ وَالتَّخْرِيبِ
4. باب: دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1552
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ، وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَنَهَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا، أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ، وقَالَ أَحْمَدُ: وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ، فَلَا تُحَرَّقْ، وقَالَ إِسْحَاق: التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اور قلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،
۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے،
۵- اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اور مکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا،
۶- شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۲؎۔
۷- احمد کہتے ہیں: اسلامی لشکر کبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلا ضرورت آگ نہ لگائی جائے،
۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگانا سنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار و رسوائی کا باعث ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1552]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المزارعة 4 (2356)، والجہاد 154 (3020)، والمغازي 14 (3960)، صحیح مسلم/الجہاد 10 (1746)، سنن ابی داود/ الجہاد 91 (2615)، سنن ابن ماجہ/الجہاد (2844)، (تحفة الأشراف: 8267)، سنن الدارمی/السیر 23 (2503) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے، لیکن بلا ضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہیئے۔
۲؎: یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2844)