عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، ابن عمر، اور ایک اور صحابی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1220]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1221]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ البیوع 45 (3437)، (تحفة الأشراف: 14448) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع 5 (1519)، سنن النسائی/البیوع 18 (4505)، سنن ابن ماجہ/التجارات 16 (2179)، مسند احمد (2/284، 403، 488) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جا ملے تاکہ بھاؤ کے متعلق بیان کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے، ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے، چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازار کی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔