ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کر لینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہو گی تو رجعت کر لوں گا۔ اس عورت نے عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ رضی الله عنہا خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو عائشہ رضی الله عنہا نے آپ کو اس کی خبر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا «الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان»”طلاق (رجعی) دو ہیں، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کر دینا ہے“(البقرہ: ۲۲۹)۔ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمار کرنا شروع کیا، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1192]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17337) (ضعیف) (سند میں ”یعلی“ لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم: 2080)»
دوسری سند سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (یعنی: مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1192M]