عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کسی عورت سے شادی کی جائے اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوحریز کا نام عبداللہ بن حسین ہے - [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1125]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث ابن عباس: سنن ابی داود/ النکاح 13 (2067) (تحفة الأشراف: 6070)، مسند احمد (1/217، 372) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابو حریز“ حافظہ کے کمزور ہیں)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2882) ، ضعيف أبي داود (352)
نصر بن علی نے بطریق: «عبد الأعلى عن هشام بن حسان عن ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی کے مثل روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابوسعید، ابوامامہ، جابر، عائشہ، ابوموسیٰ اور سمرہ بن جندب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1125M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث أبي ہریرة: انظر تخریج الحدیث الآتي»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2882) ، ضعيف أبي داود (352)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیا جائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔ اور نہ نکاح کیا جائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیا جائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں ان کے درمیان اس بات میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیک وقت کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں رکھے۔ اگر اس نے کسی عورت سے نکاح کر لیا جب کہ اس کی پھوپھی یا خالہ بھی اس کے نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کر لیا جب کہ اس کی بھتیجی نکاح میں ہو تو ان میں سے جو نکاح بعد میں ہوا ہے، وہ فسخ ہو گا، یہی تمام اہل علم کا قول ہے، ۳- شعبی نے ابوہریرہ کو پایا ہے اور ان سے (براہ راست) روایت بھی کی ہے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ہے، ۴- شعبی نے ابوہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1126]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/النکاح 27 تعلیقا عقب حدیث جابر (5108)، صحیح مسلم/النکاح 4 (408/39)، سنن ابی داود/ النکاح 13 (2065)، سنن النسائی/النکاح 47 (3288) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/النکاح 27 (5109، 5110)، صحیح مسلم/النکاح 4 (1408)، سنن ابی داود/ النکاح 13 (2066)، سنن النسائی/النکاح 47 (3290-3296)، و 48 (3297)، سنن ابن ماجہ/النکاح 31 (1929)، موطا امام مالک/النکاح 8 (20)، مسند احمد (2/426) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی خالہ پھوپھی نکاح میں ہو تو اس کی بھانجی یا بھتیجی سے اور بھانجی یا بھتیجی نکاح میں ہو تو اس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح نہ کیا جائے، ہاں اگر ایک مر جائے یا اس کو طلاق دیدے تو دوسری سے شادی کر سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (6 / 289 - 290) ، صحيح أبي داود (1802)