ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس، رمیصاء، یا غمیصاء اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر وہ کسی اور سے شادی کر لے اور وہ دوسرا شخص دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کر لیا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1118]
۲؎ «حتیٰ تذوقی عُسیلتہ ویذوق عُسیلتک» سے کنایہ جماع کی طرف ہے اور جماع کو شہد سے تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے۔