فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کر لے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 918]
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کا استدلال «حتى يرمي الجمرة» سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہیئے، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں «لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة» کے الفاظ وارد ہیں۔