ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن شخیر، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم الدھر کو مکروہ کہا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام الدھر تو اس وقت ہو گا جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کر دیا، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اور وہ پورے سال روزہ رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطار کرنا واجب نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 767]
وضاحت: ۱؎ راوی کو شک ہے کہ «لا صام ولا أفطر» کہا یا «لم يصم ولم يفطر» کہا (دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔