معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے: ”صدقہ ہے یا ہدیہ؟“ اگر لوگ کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ نہیں کھاتے اور اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو کھا لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بہز بن حکیم کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں سلمان، ابوہریرہ، انس، حسن بن علی، ابوعمیرہ (معرف بن واصل کے دادا ہیں ان کا نام رشید بن مالک ہے)، میمون (یا مہران)، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ابورافع اور عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نیز یہ حدیث عبدالرحمٰن بن علقمة، سے بھی مروی ہے انہوں نے اسے عبدالرحمٰن بن أبي عقيل سے اور عبدالرحمٰن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 656]
وضاحت: ۱؎: صدقہ اور ہدیہ میں فرق یہ ہے کہ صدقہ سے آخرت کا ثواب مقصود ہوتا ہے اور اس کا دینے والا باعزت اور لینے والا ذلیل و حاجت مند سمجھا جاتا ہے جب کہ ہدیہ سے ہدیہ کئے جانے والے کا تقرب مقصود ہوتا ہے اور ہدیہ کرنے والی کی نظر میں اس کے باعزت اور مکرم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی پر بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا: تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاس کو، مگر انہوں نے کہا: نہیں، یہاں تک کہ میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں، چنانچہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں، اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابورافع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ ہیں، ان کا نام اسلم ہے اور ابن ابی رافع کا نام عبیداللہ بن ابی رافع ہے، وہ علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے منشی تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 657]
وضاحت: ۱؎: اس اصول کے تحت ابورافع کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہوا کیونکہ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ تھے، لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے اور بنی ہاشم کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ بنی ہاشم، بنی فاطمہ اور آل نبی کی طرف منسوب کرنے والے آج کتنے ہزار لوگ ہیں جو لوگوں سے زکاۃ وصدقات کا مال مانگ مانگ کر کھاتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ”شاہ جی“ ہوتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1829) ، الإرواء (3 / 365 و 880) ، الصحيحة (1612)