الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
أبواب السفر
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
42. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ
42. باب: دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 553
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ هُوَ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى أَنْ يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ عَجَّلَ الْعَصْرَ إِلَى الظُّهْرِ وَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالصَّحِيحُ عَنْ أُسَامَةَ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ قُتَيْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور صحیح یہ ہے کہ اسامہ سے مروی ہے،
۲- نیز یہ حدیث علی بن مدینی نے احمد بن حنبل سے اور احمد بن حنبل نے قتیبہ سے روایت کی ہے ۱؎،
۳- اس باب میں علی، ابن عمر، انس، عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن عباس، اسامہ بن زید اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 553]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (706)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1206، 1220)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 74 (1070)، (تحفة الأشراف: 11320)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (2)، مسند احمد (5/229، 230، 233، 236، 237، 241)، سنن الدارمی/الصلاة 182 (1556) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جو آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1106) ، الإرواء (578) ، التعليقات الجياد

حدیث نمبر: 554
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا اللُّؤْلُئِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَعْيَنُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ مُعَاذٍ، وَحَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ قُتَيْبَةُ، لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ، عَنْ اللَّيْثِ غَيْرَهُ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ مُعَاذٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " جَمَعَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ ". رَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ومالك، وغير واحد، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، يقولان: لا بأس أن يجمع بين الصلاتين في السفر في وقت إحداهما.
اس سند سے بھی قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ رضی الله عنہ کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- معاذ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو،
۳- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے،
۴- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی (وہ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۱؎،
۵- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے،
۶- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 554]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مؤلف اور ابوداؤد کی ایک روایت (۱۲۲۰) کے سوا سب نے اسی طریق سے اور اسی مختصر متن کے ساتھ روایت کی ہے۔

حدیث نمبر: 555
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ " اسْتُغِيثَ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ فَجَدَّ بِهِ السَّيْرُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ لیث کی حدیث (رقم ۵۵۴) جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 555]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، والعمرة 20 (1805)، والجہاد 136 (3000)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (703)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1207)، سنن النسائی/المواقیت 43 (589)، و45 (592، 596، 597)، (تحفة الأشراف: 8056)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (3)، مسند احمد (2/804) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان کا نام صفیہ بنت ابی عبید ہے۔
۲؎: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ اور بہت سے علماء کا یہی قول ہے کہ دو نمازوں کے درمیان جمع اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب آدمی سفر میں چلتے رہنے کی حالت میں ہو، اگر مسافر کہیں مقیم ہو تو اسے ہر نماز اپنے وقت ہی پر پڑھنی چاہیئے، اور احتیاط بھی اسی میں ہے، ویسے میدان تبوک میں حالت قیام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمع بین الصلاتین ثابت ہے، لیکن اسے بیان جواز پر محمول کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1090)