الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
أبواب الوتر​
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
8. باب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِرَكْعَةٍ
8. باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 461
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ: أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَقَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِهِ يَعْنِي يُخَفِّفُ "قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ , وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ، وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَبِهِ يَقُولُ: مَالِكٌ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، جابر، فضل بن عباس، ابوایوب انصاری اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ) فصل کرے، ایک رکعت سے وتر کرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 461]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوتر 2 (995)، صحیح مسلم/المسافرین 20 (157/749)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 101 (1144)، (مختصرا) (تحفة الأشراف: 6652)، مسند احمد (2/31، 49، 78، 88، 126) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: گویا تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کانوں میں ہو رہی ہوتی کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آ رہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہو جانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں۔
۲؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے، اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے، اس کو تنگی میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ضمن میں زیادہ عمل، وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین، پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1144 و 1318)