الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
أبواب السهو
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
180. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
180. باب: غلطی سے ظہر یا عصر کی دو ہی رکعت میں سلام پھیر دینے والے کا حکم۔
حدیث نمبر: 399
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَهُوَ: أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَذِي الْيَدَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَوْ مَا كَانَ فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ، وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَى هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا، فَقَالَ بِهِ، وقَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي " الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ "، قَالَ الشافعي: وَفَرَّقَ هَؤُلَاءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِنْ تَكَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ قَدْ أَكْمَلَهَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُكْمِلْهَا يُتِمُّ صَلَاتَهُ، وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنَ الصَّلَاةِ، فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَى يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ، وَلَيْسَ هَكَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَى مَعْنَى مَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ، لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ، قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْكَلَامِ، وقَالَ إِسْحَاق نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر یا عصر کی) دو رکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں (آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا، پھر اپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پھر اپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا)
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمران بن حصین، ابن عمر، ذوالیدین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی نماز میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کر بیٹھے تو اسے نئے سرے سے نماز دہرانی ہو گی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎،
۴- رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو روزہ دار کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھا لے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں، کیونکہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے روزہ دار کے قصداً اور بھول کر کھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے،
۵- امام احمد ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کر لے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے، اور جو امام کے پیچھے مقتدی ہو اور بات کر لے اور یہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ نماز اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرائض کم یا زیادہ کئے جا سکتے تھے۔ اور ذوالیدین رضی الله عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھا کہ نماز کامل ہو چکی ہے اور اب کسی کے لیے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائز ہو گیا تھا، کیونکہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۱؎،
۶- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمد جیسی بات کہی ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 399]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 88 (482)، والأذان 69 (714)، والسہو 3 (1227)، و4 (1228)، و85 (1367)، والأدب 45 (6051)، وأخبار الآحاد 1 (7250)، صحیح مسلم/المساجد 19 (573)، سنن ابی داود/ الصلاة 195 (1008)، سنن النسائی/السہو 22 (1225)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 134 (1214)، (تحفة الأشراف: 14449)، مسند احمد (2/235، 433، 460)، سنن الدارمی/الصلاة 175 (1538) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف یہ کمزور دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے سے پہلے کا ہے، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوہ بدر میں ہو گیا تھا، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا، حالانکہ بدر میں ذوالشمالین رضی الله عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ نے صاف صاف بیان کیا ہے کہ میں اس واقعہ میں تھا (جیسا کہ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے) پس یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے کے بعد کا ہے۔
۲؎: یہ بات مبنی بر دلیل نہیں ہے اگر بات ایسی ہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرما دی، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہو اور آپ نہ بتائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1214)