ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے (گھر کے) ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”افلح! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر“۱؎۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ عباد بن العوام نے نماز میں پھونک مارنے کو مکروہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی نے پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز باطل نہ ہو گی۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ اسی کو ہم بھی اختیار کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو بعض دیگر لوگوں نے ابوحمزہ کے واسطہ سے روایت کی ہے۔ اور «غلاما لنا يقال له أفلح» کے بجائے «مولى لنا يقال له رباح»(ہمارے مولیٰ کو جسے رباح کہا جاتا تھا) کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 381]
اس سند سے حماد بن زید نے میمون ابی حمزہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اور اس میں «غلام لنا يقال له رباح» ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں، میمون ابوحمزہ کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، ۲- اور نماز میں پھونک مارنے کے سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں پھونک مارے تو وہ نماز دوبارہ پڑھے، یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نماز میں پھونک مارنا مکروہ ہے، اور اگر کسی نے اپنی نماز میں پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 382]