الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
75. باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ
75. باب: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 252
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وابْنِ مَسْعُودٍ، وسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ، وَاسْمُ هُلْبٍ: يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہلب رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 252]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الإقامة (809)، (تحفة الأشراف: 11735)، مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس کے برعکس امام مالک سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں سینے پر یا زیر ناف؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت «صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ» ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور یہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل» (یزید بن قنافہ ہُلب الطائی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب رضی الله عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی)۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد ۵/۲۲۶) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» ہے، بزار کی روایت میں «عند صدرہ» ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیونکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے، اسے جان بوجھ کر بعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کر دیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» اور بزار کی روایت «عند صدرہ» جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی الله عنہ کی روایت اس کے لیے شاہد ہے، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (809)