ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جو نماز سے سو گیا اور سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدار ہوا ہو یا اسے بھول گیا ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے نماز یاد آئی ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 186]
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضاء نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا اور وہ نماز اس پر واجب ہو گئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہو گی، لیکن نسائی کی روایت جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔