ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اور آپ جنبی ہوتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 118]
وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضو اور غسل کے بغیر سو سکتا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ عمل بیان جواز کے لیے ہے تاکہ امت پریشانی میں نہ پڑے، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرما لیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (581)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 581 أبو إسحاق مدلس (تقدم : 107) وصرح بالسماع عند البيهقي (1/201،202) ولكن المسند إليه ضعيف .
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ۳- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث (رقم ۱۱۸) سے جسے انہوں نے اسود سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، اور ابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ، ثوری اور دیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیال میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 119]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 16023) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان کا سب کا ماحصل یہ ہے کہ اسود کے تلامذہ میں سے صرف ابواسحاق سبیعی نے اس حدیث کو «كان النبي صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب لايمس ماء» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، اس کے برخلاف ان کے دوسرے تلامذہ نے اسے «إنه كان يتوضأ قبل أن ينام» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، لیکن کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کا اضافہ جو مخالف نہ ہو حدیث کے صحیح ہونے سے مانع نہیں ہے، اور ابواسحاق سبیعی ثقہ راوی ہیں، نیز یہ کہ احمد کی ایک روایت (۶/۱۰۲) میں اسود سے سننے کی صراحت موجود ہے، نیز سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سبیعی سے یہ روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی سے ان کی روایت سب سے معتبر مانی جاتی (دیکھئیے صحیح ابوداودرقم: ۲۳۴، اور سنن ابن ماجہ رقم: ۵۸۳)۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 581 أبو إسحاق مدلس (تقدم : 107) وصرح بالسماع عند البيهقي (1/201،202) ولكن المسند إليه ضعيف .