ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر خطبہ دیتے تو صدقہ کرنے کا حکم دیتے، تو صدقہ کرنے والوں میں زیادہ تر عورتیں ہوتی تھی، پھر اگر آپ کو کوئی حاجت ہوتی یا کوئی لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو ذکر کرتے ورنہ لوٹ آتے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1580]
حسن بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں خطبہ دیا تو کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ ادا کرو، تو (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، تو انہوں نے کہا: یہاں مدینہ والے کون کون ہیں، تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، اور انہیں سکھاؤ کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو، چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد، عورت سب پر فرض کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1581]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الزکاة 20 (1622) مطولاً، (تحفة الأشراف: 5394)، مسند احمد 1/228، 351، ویأتی عند المؤلف برقم: 2510، 2517 (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نہیں ہے، اس لیے صرف حدیث کا مرفوع حصہ دوسرے طرق سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1622) وانظر الحديث الآتي (2510) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 333
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن نماز کے بعد خطبہ دیا، پھر فرمایا: ”جس نے ہماری (طرح) نماز پڑھی، اور ہماری طرح قربانی کی تو اس نے قربانی کو پا لیا، اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر دی، تو وہ گوشت کی بکری ہے ۱؎ تو ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے تو نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا، میں نے سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میں نے جلدی کر دی، چنانچہ میں نے (خود) کھایا، اور اپنے گھر والوں کو اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو گوشت کی بکری ہوئی“(اب قربانی کے طور پر دوسری کرو) تو انہوں نے کہا: میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو گوشت کی دو بکریوں سے (بھی) اچھا ہے، تو کیا وہ میری طرف سے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، مگر تمہارے بعد وہ کسی کے لیے کافی نہیں ہو گا“۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1582]