عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے نماز پڑھی، تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے (شعبہ کہتے ہیں: میرا گمان ہے عطاء نے سجدے کے سلسلہ میں بھی یہی بات کہی ہے) اور آپ سجدے میں رونے اور پھونک مارنے لگے، آپ فرما رہے تھے: ”میرے رب! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا اور حال یہ ہے کہ میں لوگوں میں موجود ہوں“، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ”مجھ پر جنت پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے پھلوں گچھوں میں سے توڑ لیتا، نیز مجھ پر جہنم پیش کی گئی تو میں پھونکنے لگا اس ڈر سے کہ کہیں اس کی گرمی تمہیں نہ ڈھانپ لے، اور میں نے اس میں اس چور کو دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو چرایا تھا، اور میں نے اس میں بنو دعدع کے اس شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا، اور جب وہ پہچان لیا جاتا تو کہتا: یہ (میری اس) خمدار لکڑی کا کام ہے، اور میں نے اس میں ایک کالی لمبی عورت کو دیکھا جسے ایک بلی کے سبب عذاب ہو رہا تھا، جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے، یہاں تک کہ وہ مر گئی، اور سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گہناتے ہیں، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب ان میں سے کوئی گہنا جائے (یا کہا: ان دونوں میں سے کوئی اس میں سے کچھ کرے، یعنی گہنا جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو“۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1497]